تُم آخری منزل ہو میرے سارے سفر کی
اب مُجھ سے کوئی نقل مقانی نہیں ہو گی
~~~
جس کے پھندے میں پھنسا ہے دل ہمارا آج کل
وہ نظر آتا نہیں صیاد پیارا آج کل
کیا بتاؤں اس دلِ بیتاب کی بیتابیاں
کر لیا ہے اس ستمگر نے کنارہ آج کل
اس ادا سےاس نے دکھلائی مجھے اپنی جھلک
ہو گیا ہے جان سے بھی پیارا وہ آج کل
یہ نہیں معلوم تو میرا ہوا ہے یا نہیں
جان و دل سے ہو چکا ہوں میں تمہارا آج کل
~~~
رضائے یار پہ خواہش کو وارنے والے
عجب سخی ہیں محبت میں ہارنے والے
~~~
ہمارا اُن سے تعلق بھی مثالِ شمس و قمر ہے
اِک رابطہ مسلسل ، اِک فاصلہ مسلسل
~~~
اور پسندیدہ شخص کی لا پرواہی تو
اکثر انسان کو "نفسیاتی مریض" بنا دیتی ہے
~~~
آخر کو وہ آکر چومے گا میرے گال کو
ہاں وہ میری رکی ہوئی نبضوں کی سانس چلائے گا
ہاں وہ میری رکی ہوئی نبضوں کی سانس چلائے گا
~~~
تم کہاں تک کرو گے دلجوئی
میں تو اکثر اُداس رہتی ہوں
~~~
میں تیرے حصار میں جاناں
مہکتی ہوں _____ دعا جیسی
~~~
میں محبت کی بارگاہ میں ہوں
خوشبوئیں میرا طواف کرتی ہے
~~~
No comments:
Post a Comment