یوں وہ محفل میں بصد شان بنے بیٹھے ہیں
میرا دل اور مری جان بنے بیٹھے ہیں
ان کی صورت نکھر آئی پس زینت کیا کیا
دیدۂ خلق کا ارمان بنے بیٹھے ہیں
جن کو آداب تک آتے نہیں دربانی کے
آج اس در پہ وہ دربان بنے بیٹھے ہیں
مجھ کو دیکھا تو غضب ناک ہوئے ٹوٹ پڑے
کیا خبر تھی کہ وہ طوفان بنے بیٹھے ہیں
جو ہیں سلطان وہ پھرتے ہیں گداؤں کی طرح
جو گداگر ہیں وہ سلطان بنے بیٹھے ہیں
محفل ناز میں بلوا بھی لیا ہے مجھ کو
اور پھر مجھ سے وہ انجان بنے بیٹھے ہیں
اہل دل پر وہ غصہ ہے نہ وہ قہر و ستم
خیر سے آج وہ انسان بنے بیٹھے ہیں
دیکھتے ہی نہیں قصداً وہ ہماری جانب
جان کر ہم سے وہ انجان بنے بیٹھے ہیں
اے نصیرؔ ان کو سر بزم ذرا دیکھو تو
اک تماشہ کا وہ عنوان بنے بیٹھے ہیں
No comments:
Post a Comment