موسم ہے عاشقانہ
اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا
کہنا کہ رُت جواں ہے اور ہم ترس رہے ہیں
کالی گھٹا کے سائے بِرہن کو ڈس رہے ہیں
ڈر ہے نہ مار ڈالے، ساون کا کیا ٹھکانہ
موسم ہے عاشقانہ
سورج کہیں بھی جائے تم پر نہ دھوپ آئے
تم کو پکارتے ہیں ان گیسوؤں کے سائے
آجاؤ، میں بنا دوں، پلکوں کا شامیانہ
موسم ہے عاشقانہ
پھرتے ہیں ہم اکیلے، بانہوں میں کوئی لے لے
آخر کوئی کہاں تک تنہائیوں سے کھیلے
دن ہو گئے ہیں ظالم، راتیں ہیں قاتلانہ
موسم ہے عاشقانہ
یہ رات، یہ خموشی، یہ خواب سے نظارے
جگنو ہیں یا زمیں پر اترے ہوئے ہیں تارے
بے خواب میری آںکھیں، مدہوش ہے زمانہ
موسم ہے عاشقانہ
اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا
موسم ہے عاشقانہ
No comments:
Post a Comment