ملنے کی کوئی آس نہ شدت ہوا کرے
ایسی محبتوں پر لعنت ہوا کرے ۔
ہم مانتے نہیں ترے لفظوں کے کرب کو
پیلی ذرا جدائی میں رنگت ہوا کرے
کوئی سکیل ہو کوئی پیما نہ کاش ہو
جس میں بیان پیار کی وقعت ہوا کرے
اٹھتے ہوں جب قدم کسی انگلی کو تھام کر
اس موڑ پر نہ کوئی بھی رخصت ہوا کرے
ايام ہجر میں جسے پڑھ پڑھ کے دم کروں
کوئی تو ایسی صبر کی آیت ہوا کرے
ماضی اٹھا کے پھینک دو کوڑے کے ڈھیر پر
آنکھوں کو جس کی یاد سے وحشت ہوا کرے
یہ تو نہیں کہوں گی کہ مر جا ئے میرے بن
ہنسنے میں بس کبھی کبھی دقت ہوا کرے ۔
فوزیہ شیخ
No comments:
Post a Comment