اتنی مدت بعد ملے ہو
کن سوچوں میں گم پھرتے ہو
اتنے خائف کیوں رہتے ہو
ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو
تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو
کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے
رات گئے تک کیوں جاگے ہو
میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں
تم دریا سے بھی گہرے ہو
کون سی بات ہے تم میں ایسی
اتنے اچھے کیوں لگتے ہو
پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا تھا
پتھر بن کر کیا تکتے ہو
جاؤ جیت کا جشن مناؤ
میں جھوٹا ہوں تم سچے ہو
اپنے شہر کے سب لوگوں سے
میری خاطر کیوں الجھے ہو
کہنے کو رہتے ہو دل میں
پھر بھی کتنے دور کھڑے ہو
رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا
رات بہت ہی یاد آئے ہو
ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے
اپنی کہو اب تم کیسے ہو
محسنؔ تم بدنام بہت ہو
جیسے ہو پھر بھی اچھے ہو
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment