میں سوچتی ہوں تمہاری الفت کا ایسا کوئی جواب لکھوں
جو لکھنے بیٹھوں تو لکھ سکوں میں تمہاری پیاری کتاب لکھوں
میں تیری نظروں کے یہ اشارے سمجھ رہی ہوں سمجھ گئی ہوں
مگر جو پلکوں میں ہے چھپایا وہ کس طرح سے خواب لکھوں
یہ پھول جیسی ہے تیری خوشبو جو من میں میرے سما رہی ہے
مگر پڑیں ہیں یہ مشکلیں بھی میں ان کا کیسے حساب لکھوں
یہ زندگی کی سبھی لکیریں نہ جانے کیوں آج مٹ گئیں ہیں
جو میرے دل پر گزر چکی ہیں وہ زندگی کا عذاب لکھوں
ہماری چاہت کے دائرے میں یہ کس کی آواز آ رہی ہے
مسرتوں کو جو شوخ بخشے میں کیوں نہ اس کو گلاب لکھوں
No comments:
Post a Comment