ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
سورج کے اجالوں سے، فضاؤں سے ، خلا سے
چاند اور ستاروں کی چمک اور ضیا سے
جنگل کی خموشی سے، پہاڑوں کی انا سے
پرہول سمندر سے ، پراسرار گھٹا سے
بجلی کے چمکنے سے ، کڑکنے کی صدا سے
مٹی کے خزانوں سے، اناجوں سے، غذا سے
برسات سے، طوفان سے، پانی سے، ہوا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
گلشن کی بہاروں سے، تو کلیوں کی حیا سے
معصوم سی روتی ہوئی شبنم کی ادا سے
لہراتی ہوئی باد سحر، باد صبا سے
ہر رنگ کے ہر شان کے پھولوں کی قبا سے
چڑیوں کے چہکنے سے تو بلبل کی نوا سے
موتی کی نزاکت سے تو ہیرے کی جلا سے
ہر شے کے جھلکتے ہوئے فن اور کلا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
دنیا کے حوادث سے ، وفاؤں سے، جفا سے
رنج و غم و آلام سے، دردوں سے، دوا سے
خوشیوں سے، تبسم سے، مریضوں کی شفا سے
بچوں کی شرارت سے تو ماؤں کی دعا سے
نیکی سے، عبادات سے، لغزش سے، خطا سے
خود اپنے ہی سینے کے دھڑکنے کی صدا سے
رحمت تیری ہر گام پہ دیتی ہے دلاسے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
ابلیس کے فتنوں سے تو آدم کی خطا سے
اوصاف براہیم سے، یوسف کی حیا سے
اور حضرت ایوب کی تسلیم و رضا سے
عیسیٰ کی مسیحائی سے، موسیٰ کے عصا سے
نمرود کے، فرعون کے انجام فنا سے
کعبہ کے تقدس سے تو مرویٰ و صفا سے
تورات سے، انجیل سے، قرآں کی صدا سے
یٰسین سے، طٰہٰ سے، مزمل سے ، نبا سے
اک نور جو نکلا تھا کبھی غار حرا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
شاعر:عتیق احمد جاذب
No comments:
Post a Comment