تڑپتے بادل برستی بارش اور سہانا موسمنا جانے کتنے دلوں کا آج امتحان ہو گا
ہائے،بہار موسم اور ہلکی ہلکی بارشمجھ کو آغوش یار پھر یاد آ گئی
کھل جاتے ہیں دل ویراں پہ زخموں کے غنچےان بادلوں سے کہدو کہ ہم پہ نہ برسیں
سنو یہ برستی بارش تمھارے عشق جیسی ہےکہ جب بھی ہوتی ہے مجھ کو بھگا سا جاتی ہے
ان بارشوں کو روکو کہیں میرا ضبط توڑ نہ دیںلہو روتی اپنی آنکھوں کو بڑی مشکلوں سے تھاما ہے
ٹپکتی بوندیں نکھار دیتی ہیں جیسے مرجھائے سےگل کومجھے بھی نکھرنے کی آرزو ہے تیرے ہونٹوں کی نمی سے
اوڑھ کر بادل کی چادر اور بہانا بارشوں کاتشنہ عالم سسکتے بادل یہ معاملہ تو کوی اور ہے
کبھی آرزو جگا دیں کبھی تشنگی بڑھا دیںیہ بارشیں تو پنچھی عذاب جان بن چکی ہیں
Special Thanks to Abdul Wadood PANCHI❤
No comments:
Post a Comment